Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 3

کچھ ہی دنوں میں انعم کی شادی اس کے کزن سے ہوگئی ۔ وہ بہت خوش تھی۔ وہ ساری فرینٹس انعم سے شادی کی ٹریٹ لینے کے لیے تھیں ۔۔۔

خوشی چیک کریں آپ بس اس کی ۔۔۔(یہ حرا تھی جو انعم کو خوش دیکھ کر تصبیہا سے بولی)

ماشااللہ۔۔۔۔۔(تصبیہا نے محبت سے اپنی دوست کو دکیھ کر کہا تو انعم اس کے گلے لگ گئی۔)

شکریہ بہت بہت ۔اگر تم مجھے اس وقت گائیڈ نہ کرتیں تو آج میں اتنی خوش نا ہوتی ،اتنا اچھا جیون ساتھی نہ ملا ہوتا۔۔۔(انعم نے تصبیہا کہ ہاتھ پکڑکر کہا تو وہ بولی)

چل پگلی رولائے گی کیا۔۔۔۔(تصبیہا نے فل ڈرامائی انداز میں کہا تو وہ سب ہنسنے لگیں ۔)

چلو بہت دیر ہورہی ہے امی سے کٹ نہلگ جائے۔(یہ حیرا تھی جو اپنی امی کہ ڈر سے بولی)

ہاں دیر تو ہورہی ہے چلو چلتے ہیں ۔۔۔(تصبیہا نے اس کی تائید کی)

وہ سب ساتھ ہوٹل سے نکلے ۔گاڑی روڈ کروس کرکہ پارک کی تھی ۔ وہ لوگ روڈ کروس کرنے لگے کہ تصبیہا کہ موبائل پر کال آنے لگی ۔اس نے نام دیکھنے کہ لیے موبائل دیکھا اتنے میں باقی سب آگے نکل گئیں ۔ ایک کار بہت تیز رفتار میں آرہی تھی اور اس نے تصبیہا کو ٹکر ماری اور وہ کچھ دور جاکر گری۔)

تصبیہا ۔۔۔۔۔(اس سب کی چیخیں نکل گئی۔ وہ کار والا بھلا اس کے وہ روک اسے ہستپتال لے کرجاتا ،وہ کار کو بگالے گیا۔)

(وہ سب تصبیہا کہ پاس بھاگتی ہوئی آیئں ۔تصبیہا کہ سر سے خون بہہ رہا تھا ۔اس کی آنکھیں بند تھیں ۔خون کافی بہہ چکا تھا اس کا ۔وہ سب اسے لے کر ہوسپیٹل پہنچے تو اس کو اوپریشن کے لیے لے گئے ۔ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوپریشن کی تیاریاں مکمل ہونے کہ بعد ڈاکٹر نے اس کا اوپریشن شروع کیا تو اس کی شکل دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔دل تو کیا کہ اسے اس حالت میں ہی رہنے دے ۔کچھ دیر گزری تو ایک نرس بولی ۔)

ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔ (نرس کی آواز پر وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آیا۔۔۔اگر وہ ڈاکٹر نہیں ہوتا تو اسے اس حالت میں ہی مرنے دیتا ۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ گھنٹوں کے بعد تصبیہا کو روم میں شفٹ کردیا گیا ۔۔سر پر اس کے پٹی بندھی تھی ۔ اس کا کافی خون بہہ گیا تھا جس کی وجہ سے اسے خون چڑھ رہاتھا ۔ اس کے گھر والے ،دوست سب وہاں موجود تھے۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر اسکے ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اخر اکلوتی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر آنسو تو آنے ہی تھے۔ دو گھنٹے کے بعد اسے ہوش آگیا ۔ )

(تصبیہا جلدی ریکور کررہی تھی ۔ آج اس کو ڈاکٹر اسے دیکھنے آئے تو اس نے نرس کو انجیکشن لگانے کو کہا ۔جس پر تصبیہا نے صاف انکار رکر دیا ۔)

نہیں میں نہیں لگاو گی انجیکشن ۔۔۔۔۔(تصبیہا نے نفی میں گردن ہلائی)

دیکھئے یہ آپ کی ہی بہتری کے لیے ہے ۔۔۔(ڈاکٹر نے آرام سے اسے سمجھایا )

آپ مجھے ٹیبلیٹس دے دیں میں وہ کھا لوں گی مگر انجیکشن نہیں ۔۔(وہ کسی صورت انجیکشن لگوانے کے لیے راضی نہیں تھی ۔)

مگر ۔۔۔(وہ کچھ بولتا اس سے پہلے وہ بولی ۔)

اگر مگر کچھ نہیں ۔۔۔۔(تصبیہا نے آخری فیصلہ سنایا)

(وہ ڈاکٹر کچھ اور کہتا کہ دروازا کھول کر وہ اندر آیا ۔سب نے دروازے کی طرف دیکھا ۔تصبیہا حیران پریشان اسے دیکھ رہی تھی ۔ )

یہ تو وہ ہی ہے ۔۔ یہ یہاں کیا کررہا ہے؟(تصبیہا نے دل میں سوچا وہ اسے پہچان چکی تھی ۔وہ وہی تھا جس کی بےعزتی اس نے کچھ دن پہلے کی تھی ۔)

کیا شور ہورہا ہے ؟(وہ غصے سے بولا )

ڈاکٹر یہ انجیکشن لگوانے کوراضی نہیں ہیں ۔(اس ڈاکٹر نے اسے بتایا )

(اس نے غصے سے تصبیہا کی طرف دیکھا اور اسے گھورنے لگا ۔ اتنے میں تصبیہا کے بابا بولے)

بیٹا لگ والو کچھ نہیں ہوتا ۔
انجیکشن مجھے دیں ۔۔۔(اس نے ڈاکٹر کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر گھور وہ ابھی بھی تصبیہا کوہی رہا تھا ۔۔)

(تصبیہا نے نفی میں سر ہلایا ۔کیونکہ جس طرح وہ دیکھ رہا تھا ۔تصبیہا کو وہ بہت غصے میں لگا تھا ۔۔۔)

بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اس کے بابا بولے تو تصبیہا جھٹ بولی )

اپ میرے بابا ہیں یا اس کے ۔ میں نے نہیں لگوانا (تصبیہا نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔)

آپ سب باہر جایں ۔۔۔۔(اس نے تصبیہا کے بابا ،ڈاکٹر اور نرس سے کہا تو وہ لوگ باہر چلے گئے تو تصبیہا نے اپنے بابا سے کہا)

بابا نہیں آپ تو نہیں جاہیں ۔۔۔۔۔(وہ ڈر کر بولی )

میں باہر ہی ہوں بیٹا ۔۔(انھوں نے پیار سے سمجھایا اور باہر چلے گئے ۔تو تصبیہا نے اسے دیکھا جو ابھی بھی نیہایت غصے سے اسے دیکھ رہا تھا )

کیا تماشا لگاہوا ہے ۔۔۔مجھے لگتا ہے تمہارا شوق ہی یہ ہے ۔۔۔(اس نے غصے سے کہا اور تصبیہا کا ہاتھ پکڑا )

نہیں پلز نہیںںںںننننننننننں (وہ منا رتی رہی اور اس نے انجیکشن اس کے ہاتھ میں لگادیا ۔مگر اس نے انجیکشن اتنی زور سے لگایا تھا کہ وہ درد سے چللا اٹھی ۔اس نے ایک جھٹکے سے تصبیہا کا ہاتھ جھٹکا ۔ تصبیہا کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔)

(تصبیہا کو اس حالت میں دیکھ کر اسے کتنی خوشی ہورہی تھی کوئی اس سے پوچھتا ۔ چند سیکنڈ وہ اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا کر باہر نکل گیا )

(تصبیہا اپنا ہاتھ سہلاتی رہی اور غصے سے دروازے کوگھورنے لگی جہاں سے وہ ابھی گیا تھا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(وہ اپنے کیبن میں بیٹھا کسی فائل کا مطالہ کر رہا تھا جب سعد انر آیا )

ہاں بھائی کیا حال ہیں تیرے ۔۔۔(سعد سامنے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا اور اس سے بولا)

بلکل ٹھیک ،مجھے کیا ہوا ہے ؟(وہ مسکرا کر بولا تو سعد جھٹکے سے اٹھا اور اس کی طرف آیا اور بولا )

یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ۔تو مسکرایا ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کچھ دنوں سے تیری مسکراہٹ کہیں غایب تھی، جب سے وہ لڑکی۔۔۔۔۔۔(وہ آگے بولتے ہوئے روکا ) آج کیا ہوا ہے ؟(سعد حیرت ست بولا)

ہمممم اسی لڑکی کو تھووووووڑی سی تکلیف دے کر آرہا ہوں ۔(وہ تصور میں تصبیہا کی شکل یاد کر کہ مسکرا کر بولا )3

ہیں ،کب ،کہا،کیسے ؟جلدی بتا ۔(سعد دلچسپی سے بولا تو اس نے سب بتا دیا )

وا میرے شیر یہ ہوئی نہ بات ۔۔۔(سعد نے اس نے کھندھے تھپٹھپایا ۔)

(یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔(اس نے دل میں سوچا ۔۔۔ کہ دروازے پر دستک ہوئی تو وہ سوچوں سے باہر آیا ۔ایک نرس اندر اآئی اور بولی)

ڈاکٹر موصب ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اوپریشن کی۔۔۔

ٹھیک ہے میں آرہا ہوں ۔۔۔۔(موصب آرام سے بولا اور باہر نکل گیا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آج تصبیہا کو دیسچارج ہونا تھا ۔اس کے بابا ڈاکٹرموصب کے کیبن میں بیٹھے تھے ۔)

انکل آپ فکر نہیں کریں وہ بلکل ٹھیک ہیں ۔ آپ انھیں لےجا سکتے ہیں ۔(موصب آرام سے انھیں سمجھا رہا تھا ۔ایک اچھے ڈاکٹر کی طرح ۔وہ سب سے بہت ہی نرم لہجے میں بات کرتا تھا ۔ اس وقت بھی وہ تصبیہا کے بابا سے بہت تمیز سے بات کررہا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تصبیہا کے والد ہیں ۔)

   1
0 Comments